تمہید:
حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نواسۂ رسول ﷺ، اہل بیت کے چشم و چراغ، علم و حلم، سخاوت و صلح کا پیکر تھے۔ آپ کی زندگی میں کئی اہم سفر ہوئے جو نہ صرف آپ کی شخصیت کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ امتِ مسلمہ کے لیے عظیم اسباق بھی چھوڑ گئے ہیں۔
آئیے ہم اُن کے ایک اہم اور بابرکت سفر کا تذکرہ کرتے ہیں جو آپ نے عراق، مدینہ اور مکہ کی طرف کیا۔
---
1. ابتدائی حالات اور مدینہ سے روانگی
جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت واقع ہوئی، تو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو خلافت سونپی گئی۔ اس وقت سیاسی حالات نہایت نازک تھے۔ عراق کی کوفہ ریاست ان کا مرکز تھی، جبکہ شام میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت مضبوط ہو چکی تھی۔
امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صلح کو جنگ پر ترجیح دی، اور جب حالات بگڑنے لگے تو آپ نے اللہ کے حکم اور رسولﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ایک تاریخی سفر کا فیصلہ کیا۔
مدینہ سے روانگی کے وقت آپ نے اپنے خاندان، اہل بیت، اور چند قریبی ساتھیوں کے ساتھ کوچ کیا۔
---
2. راستے میں عوام کا استقبال
جب امام حسن رضی اللہ عنہ عراق کی طرف روانہ ہوئے تو جگہ جگہ لوگوں نے آپ کا شاندار استقبال کیا۔ لوگ آپ کو نبی کریم ﷺ کے نواسے کے طور پر جانتے تھے اور بڑی محبت سے ملتے۔
لوگ آپ سے دعائیں کرواتے، اپنے مسائل پوچھتے اور آپ کی خدمت میں نذرانے پیش کرتے۔ آپ نہایت عاجزی سے جواب دیتے، دعائیں دیتے اور اکثر تحائف کو فقراء میں تقسیم کر دیتے۔
ایک مرتبہ ایک غریب کسان نے اپنا خشک روٹی کا ٹکڑا پیش کیا، امام حسنؓ نے وہ قبول کیا، اور کہا:
> "یہ تحفہ میرے لیے سونے سے زیادہ قیمتی ہے، کیونکہ یہ دل سے دیا گیا ہے۔"
---
3. کوفہ میں داخلہ اور خطبہ
جب آپ کوفہ پہنچے تو اہل کوفہ نے والہانہ استقبال کیا۔ آپ نے مسجد کوفہ میں خطبہ دیا، جس میں آپ نے فرمایا:
> "اے لوگو! ہم اہلِ بیت ہیں، جنہیں اللہ نے ہر طرح کی ناپاکی سے پاک رکھا ہے۔ میں تمہارا خیرخواہ ہوں، اور امت کی وحدت چاہتا ہوں۔"
یہ خطبہ اتنا پُراثر تھا کہ بہت سے لوگ رو پڑے۔
---
4. میدانِ جنگ کا منظر
جب حضرت حسنؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان جنگ کا امکان پیدا ہوا، تو امام حسنؓ نے ایک بڑی فوج تیار کی۔ لیکن وہ خون خرابے سے بچنا چاہتے تھے۔
اسی دوران اُن کے کچھ سردار لالچ میں آ کر حضرت معاویہؓ سے جا ملے۔ امام حسنؓ نے جب یہ دیکھا کہ امت مزید تقسیم ہو رہی ہے، تو آپ نے صلح کو ترجیح دی۔
آپ نے فرمایا:
> "اگر میری جان بچانے سے امت کا نقصان ہو تو میں مرنا پسند کروں گا، لیکن اگر میری خاموشی سے امت بچتی ہے تو میں صبر کروں گا۔"
---
5. صلح کا تاریخی فیصلہ
بالآخر امام حسنؓ نے ایک عظیم فیصلہ کیا – صلح۔
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کئی شرائط پر صلح کی گئی، جیسے:
حضرت معاویہؓ نبی کریم ﷺ کی سُنت پر عمل کریں گے۔
اہل بیت کو عزت دی جائے گی۔
حضرت معاویہؓ کے بعد خلافت امام حسنؓ کو واپس دی جائے گی (لیکن اس کا موقع نہ آیا کیونکہ امام حسنؓ جلد وفات پا گئے)۔
یہ صلح، "صلحِ حسن" کے نام سے جانی جاتی ہے، جو تاریخِ اسلام میں اتحاد و اخوت کی سب سے بڑی مثال ہے۔
---
6. سفرِ واپسی مدینہ
صلح کے بعد امام حسنؓ واپس مدینہ تشریف لے گئے۔ یہ سفر خاموشی، فکر، اور صبر کا سفر تھا۔ آپ جانتے تھے کہ آپ نے امتِ مسلمہ کو بچا لیا ہے، مگر دل دکھ سے بھرا ہوا تھا۔
راستے میں آپ نے کئی مقامات پر قیام کیا، لوگوں سے محبت سے پیش آئے، قرآن کی تعلیم دی، اور امت کو اخوت کا درس دیا۔
---
7. مدینہ میں زندگی
مدینہ پہنچ کر امام حسنؓ نے ایک سادہ اور زاہدانہ زندگی گزاری۔ آپ علم، عبادت، اور خدمتِ خلق میں مصروف رہتے۔ آپ کے گھر کے دروازے ہر وقت محتاجوں کے لیے کھلے رہتے۔
ایک دن ایک شخص نے آپ کو برا بھلا کہا۔ امام حسنؓ نے مسکرا کر فرمایا:
> "اگر تم بھوکے ہو تو کھانا دوں، اگر تمہیں کپڑا چاہیے تو کپڑا دوں، اگر قرض میں ہو تو مدد کروں۔"
وہ شخص شرمندہ ہو کر آپ کے قدموں میں گر پڑا اور کہا:
> "آپ اللہ کے ولی ہیں!"
---
8. آخری سفر – زہر دیے جانے کا واقعہ
کچھ روایات کے مطابق آپ کو زہر دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے آپ شدید بیمار ہوئے۔ آپ کا آخری وقت قریب آیا تو آپ نے اپنے چھوٹے بھائی امام حسینؓ کو بلایا، اور فرمایا:
> "حسین! امت کو بچانا، اور حق پر قائم رہنا۔"
یہ الفاظ تاریخ میں محفوظ ہیں، جو اُن کے دل میں امت کے لیے درد کی گواہی دیتے ہیں۔
---
9. وصال
امام حسنؓ نے 47 ہجری میں وفات پائی۔ آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ آپ کی قبر آج بھی زیارت گاہ ہے۔
---
10. سفرِ حسن کے اسباق
امام حسنؓ کے اس سفر سے ہمیں کئی سبق ملتے ہیں:
1. صبر – ہر مشکل میں صبر کا دامن تھامنا۔
2. صلح پسندی – اختلاف کے بجائے اتحاد کی کوشش۔
3. سخاوت – دینے کی عادت، حتیٰ کہ دشمن کو بھی۔
4. خدمتِ خلق – عوام سے محبت، نرمی اور اخلاق۔
---
✨ اختتامیہ:
امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ سفر صرف ایک سیاسی فیصلہ نہیں تھا بلکہ امتِ مسلمہ کے لیے ایک ایسی مثال ہے جس پر چل کر ہم آج بھی فتنوں سے بچ سکتے ہیں۔
آپ کی صلح، قربانی، حلم، علم، اور عبادت ہمیں بتاتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے نواسے نے دینِ اسلام کو خون سے نہیں بلکہ صلح سے محفوظ کیا۔
0 Comments