hazrat amar ban khatab razi ad ana ki shahadat ka waqa

 


حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ


تعارف


حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اسلام کے دوسرے خلیفہ راشد تھے۔ آپ کی خلافت کا دور عدل، انصاف، دیانت داری، شجاعت اور فتوحات سے بھرپور تھا۔ آپ نے اسلامی ریاست کو وسعت دی، انتظامی نظام کو مستحکم کیا، بیت المال کا قیام عمل میں لایا، اور رعایا کی فلاح و بہبود کو اپنی اولین ترجیح بنایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت اسلام کی تاریخ کا ایک نہایت دردناک اور عبرت آموز باب ہے۔



---


شہادت سے پہلے کا پس منظر


حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت دس سال، چھ ماہ اور چار دن پر محیط تھی۔ اس دوران روم اور ایران جیسے عظیم الشان سلطنتوں کو شکست دے کر اسلام کا پرچم بلند کیا گیا۔ آپ نہ صرف ایک عظیم فاتح تھے بلکہ ایک عادل حکمران اور بے مثال انسان بھی تھے۔ آپ کی زندگی کا ہر لمحہ قرآن و سنت کے مطابق گزرا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلافت کو ایک باقاعدہ نظام کے تحت چلایا۔ صوبے قائم کیے، گورنر تعینات کیے، عدالتیں بنائیں، فوجی نظام کو منظم کیا، مردم شماری کروائی اور ڈاک کا نظام شروع کیا۔ ان اصلاحات نے اسلامی معاشرے کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔



---


قاتل کا تعارف اور سازش


حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کا منصوبہ ایک مجوسی غلام "ابو لؤلؤ فیروز" نے بنایا۔ وہ مغلوب القوم تھا اور اسلام سے بغض رکھتا تھا۔ یہ شخص مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا غلام تھا، جو اسے کام کے عوض جزیہ ادا کرنے پر مجبور تھا۔ ابو لؤلؤ اکثر خلیفہ کے پاس شکایت لے کر آتا تھا کہ اس پر جزیہ بہت زیادہ ہے، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تحقیق کے بعد کہا کہ جتنا جزیہ اس پر ہے وہ مناسب ہے، کیونکہ وہ مختلف ہنر کا ماہر ہے۔


ابو لؤلؤ اس بات سے دل میں رنجیدہ تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے شدید نفرت کرنے لگا۔ ایک روز اس نے اپنے ایک مجوسی دوست کے ساتھ مشورہ کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ وہ نہایت چالاکی سے ایک زہریلا خنجر تیار کرتا رہا، جس کے دونوں طرف دھار تھی اور اس میں زہر لگایا ہوا تھا۔



---


شہادت کا دن


یہ واقعہ سن 23 ہجری کا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہمیشہ کی طرح نماز فجر کے لیے مسجد نبوی تشریف لائے۔ آپ نے محراب میں کھڑے ہو کر نماز شروع کی اور امامت کروانے لگے۔ جیسے ہی آپ نے تکبیر کہی، ابو لؤلؤ فیروز چھپ کر محراب کے قریب پہنچا اور اپنے زہریلے خنجر سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر اچانک حملہ کر دیا۔


اس نے یکے بعد دیگرے چھ وار کیے، جن میں سے تین وار آپ کے پیٹ اور جسم کے نازک حصے پر تھے۔ ایک وار آپ کے ناف کے قریب کیا گیا جو بہت خطرناک ثابت ہوا اور زہر بھی اثر دکھانے لگا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ زمین پر گر پڑے اور شدید زخمی ہو گئے۔ آپ کی آواز سے مسجد میں ہلچل مچ گئی۔



---


قاتل کی خودکشی


نماز پڑھنے والے لوگ پریشان ہو گئے اور ابو لؤلؤ کو پکڑنے کی کوشش کی۔ اس نے بھاگنے کی کوشش کی اور راستے میں تقریباً 12 لوگوں کو زخمی کر دیا جن میں سے کئی شہید ہو گئے۔ آخرکار ایک صحابی نے اس پر چادر ڈال کر قابو پانے کی کوشش کی، لیکن ابو لؤلؤ نے خود پر خنجر چلا کر خودکشی کر لی۔



---


حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حالت اور وصیت


حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی حالت میں ان کے گھر لے جایا گیا۔ انہوں نے سب سے پہلے پوچھا:


> "کیا لوگوں نے نماز مکمل کر لی؟"




یہ سن کر سب حیران رہ گئے کہ اتنی تکلیف کے باوجود انہیں نماز کی فکر ہے۔ جب انہیں بتایا گیا کہ نماز مکمل ہو گئی تو انہوں نے شکر ادا کیا اور فرمایا:


> "جس کا نماز میں حصہ نہ ہو، اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔"




آپ کو شدید تکلیف ہو رہی تھی، زخم گہرا اور زہریلا تھا۔ طبیب نے خجور کا شیرہ پلانے کی کوشش کی، لیکن وہ زخم سے باہر نکل آیا۔ اس پر طبیب نے کہا:


> "امیر المؤمنین اب آخری وقت میں ہیں۔"




حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اجازت لیں کہ انہیں حضور اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس دفن کیا جائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نہایت خلوص سے اجازت دی۔



---


خلافت کا معاملہ


حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت سے پہلے ایک مجلس شوریٰ قائم کی جس میں چھ صحابہ کرام شامل تھے:


1. حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ



2. حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ



3. حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ



4. حضرت زبیر رضی اللہ عنہ



5. حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ



6. حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ




آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ تین دن کے اندر اندر خلیفہ کا انتخاب کریں اور اگر کوئی اختلاف کرے تو اسے قتل کر دیا جائے تاکہ امت میں فتنہ نہ پھیلے۔



---


آخری لمحات


حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے آخری وقت میں نہایت عاجزی سے کہا:


> "کاش! میں نہ خلیفہ بنتا، کاش! میں ایک عام انسان ہوتا، کاش! میں دنیا میں کچھ نہ ہوتا۔"




یہ الفاظ ان کی عاجزی اور خوفِ خدا کو ظاہر کرتے ہیں۔


آخرکار تین دن کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ آپ کی عمر اس وقت 63 سال تھی، بالکل اتنی ہی عمر جتنی رسول اللہ کی تھی۔



---


دفن اور امت کا سوگ


حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ آپ کو حضور ﷺ کے پہلو میں دفن کیا گیا، جہاں پہلے ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آرام فرما چکے تھے۔


مدینہ کی گلیوں میں رونا دھونا تھا، ہر آنکھ اشکبار تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:


> "عمر! تم اپنے بعد کوئی ایسا وارث نہیں چھوڑ کر جا رہے جو تمہارے جیسا ہو۔"





---


حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شخصیت اور اثرات


حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت نے امت مسلمہ پر گہرا اثر ڈالا۔ وہ ایک مثالی حکمران، سچا عاشق رسول، عدل و انصاف کا پیکر، بہادر سپہ سالار، اور زاہد و عابد انسان تھے۔ آپ کے دور کی فتوحات، انتظامی اصلاحات اور رعایا کی فلاح و بہبود نے اسلامی ریاست کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔



---


نتیجہ


حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت اسلام کے لیے ایک عظیم سانحہ تھا۔ آپ نے جس عدل، دیانت داری، اور خلوص سے خلافت کو نبھایا، وہ تاریخ کا سنہری باب ہے۔ آپ کی شہادت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ حق اور عدل کا راستہ ہمیشہ قربانی مانگتا ہے۔ آپ کی زندگی اور شہادت قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

Post a Comment

0 Comments