hazrat usaf aliya alsalam ka bachapon makmal waqa



 تعارف:

حضرت یوسف علیہ السلام اللہ کے جلیل القدر نبیوں میں سے ایک ہیں۔ آپ کا نسب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملتا ہے، آپ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوبصورتی، عقل، حکمت اور نبوت سے نوازا۔ ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ آزمائشوں، صبر، اور اللہ پر کامل بھروسے کی عملی تصویر ہے، خاص طور پر ان کا بچپن جو کئی حیران کن واقعات سے بھرا ہوا ہے۔


آئیے ہم حضرت یوسف علیہ السلام کے بچپن کے مکمل واقعے کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں:



---


حضرت یوسف علیہ السلام کا بچپن


1. ولادت اور خاندانی پس منظر:

حضرت یوسف علیہ السلام کی پیدائش کنعان (موجودہ فلسطین کے علاقے) میں ہوئی۔ آپ کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام نبی تھے اور آپ حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے تھے، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے کل گیارہ سگے بھائی تھے، اور آپ ان میں سب سے زیادہ محبوب تھے۔


آپ کی والدہ حضرت راحیل تھیں، جو حضرت یعقوب علیہ السلام کو بہت عزیز تھیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نہ صرف ظاہری خوبصورتی میں ممتاز تھے بلکہ ان کے اخلاق اور کردار بھی بے مثال تھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام ان سے بہت محبت کرتے تھے جس کی وجہ سے دوسرے بھائیوں کے دل میں حسد پیدا ہو گیا۔



---


2. خواب کا واقعہ:

حضرت یوسف علیہ السلام نے بچپن میں ایک خواب دیکھا، جو ان کے مستقبل کی نبوت اور عزت کی علامت تھا۔ خواب کچھ یوں تھا:


> "اِنی رأیتُ أحَدَ عَشَرَ كوكباً والشمسَ والقمرَ رَأیتُهم لي ساجدين"
(سورۃ یوسف، آیت 4)

ترجمہ: "میں نے خواب میں گیارہ ستاروں کو، سورج اور چاند کو دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔"




حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ خواب اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کو سنایا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام چونکہ خود نبی تھے، انہوں نے فوراً سمجھ لیا کہ یہ خواب کسی عظیم مستقبل کی طرف اشارہ ہے۔ انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ہدایت کی کہ یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ بتائیں، کیونکہ وہ حسد کریں گے۔



---


3. بھائیوں کا حسد اور سازش:

حضرت یعقوب علیہ السلام کی حضرت یوسف علیہ السلام سے محبت، بھائیوں کو برداشت نہ ہوئی۔ وہ ہمیشہ یہ سوچتے کہ ہمارے والد ہم سے زیادہ یوسف سے کیوں محبت کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے دل میں بغض و حسد پال لیا۔


ایک دن بھائیوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام سے کہا کہ ہم یوسف کو اپنے ساتھ چراگاہ میں لے جانا چاہتے ہیں تاکہ وہ بھی کھیل کود کرے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے پہلے انکار کیا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ کہیں کوئی نقصان نہ پہنچے، خصوصاً بھیڑیے کا ڈر تھا۔ لیکن بھائیوں نے بہت اصرار کیا، اور آخرکار حضرت یعقوب علیہ السلام نے اجازت دے دی۔



---
4. حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالنا:

جب حضرت یوسف علیہ السلام کو بھائی چراگاہ میں لے گئے، تو انہوں نے ان کے ساتھ ظلم کا منصوبہ بنایا۔ انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو پکڑ کر ان کے کپڑے اتارے اور ایک گہرے اندھیرے کنویں میں ڈال دیا۔


اس کے بعد انہوں نے ایک بکرے کا خون لے کر حضرت یوسف علیہ السلام کا قمیص خون آلود کیا اور گھر جا کر والد سے کہا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان کی باتوں پر یقین نہیں کیا، کیونکہ قمیص پر صرف خون تھا لیکن پھاڑا ہوا نہیں تھا۔ یہ ان کے لیے مشکوک بات تھی۔ انہوں نے کہا:


> "بل سولت لکم أنفسکم أمراً فصبر جمیل"

ترجمہ: "بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک بات کو آسان بنا دیا، اب صبر ہی بہتر ہے۔"





---
5. حضرت یوسف علیہ السلام کا صبر اور بھروسا:

حضرت یوسف علیہ السلام نے کنویں کے اندھیرے میں کئی گھنٹے یا دن گزارے۔ وہ بہت چھوٹے تھے، مگر ان کا اللہ پر بھروسا مضبوط تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں صبر اور تسلی نازل فرمائی۔


آخر کار کچھ قافلہ والے وہاں سے گزرے۔ جب انہوں نے کنویں میں پانی ڈالنے کے لیے ڈول اتارا تو حضرت یوسف علیہ السلام اس میں نکل آئے۔ وہ بہت حیران ہوئے اور کہنے لگے:


> "یا بشریٰ ھذا غلام"

ترجمہ: "واہ! یہ تو ایک خوبصورت لڑکا ہے!"




انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو غلام بنا کر بیچنے کا فیصلہ کیا۔



---


6. بازار مصر میں فروخت:

قافلے والے حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر لے گئے اور انہیں ایک معمولی قیمت پر بیچ دیا۔ اس کی تفصیل قرآن میں کچھ یوں آتی ہے:


> "وشروہ بثمن بخس دراهم معدودة وكانوا فيه من الزاهدين"

(سورۃ یوسف، آیت 20)

ترجمہ: "انہوں نے یوسف کو معمولی قیمت کے چند درہموں کے بدلے بیچ دیا، اور وہ ان سے بے پروا تھے۔"




انہیں مصر کے ایک وزیر عزیز نے خرید لیا، جو بعد میں حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے گھر لے گیا اور اپنی بیوی (زلیخا) سے کہا کہ اسے عزت سے رکھو، ممکن ہے یہ ہمیں فائدہ دے، یا ہم اسے بیٹا بنا لیں۔



---


7. مصر میں نئے حالات:

اب حضرت یوسف علیہ السلام کا بچپن غلامی کی حالت میں گزر رہا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر خاص رحم فرمایا۔ وزیرِ مصر کا گھر ایک عظیم محل تھا، جہاں انہیں تعلیم، رہائش، اور سہولیات ملنے لگیں۔


حضرت یوسف علیہ السلام خوبصورت، بااخلاق، اور علم دوست بچے تھے۔ انہوں نے اپنے اچھے اخلاق سے گھر والوں کے دل جیت لیے۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے انہیں حکمت اور علم سے بھی نوازا۔



---


8. صبر، اعتماد اور اللہ پر توکل:

اگرچہ حضرت یوسف علیہ السلام بچپن میں والدین سے جدا ہو چکے تھے، غلام بنا دیے گئے تھے، اور بے گناہ کنویں میں پھینکے گئے تھے، مگر انہوں نے کبھی شکوہ نہیں کیا۔ ان کی پوری زندگی اس آیت کی عملی تفسیر تھی:


> "إن الله مع الصابرين"

ترجمہ: "بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔"





---


9. حضرت یعقوب علیہ السلام کا غم:

دوسری طرف حضرت یعقوب علیہ السلام بیٹے کی جدائی میں بہت رنجیدہ رہنے لگے۔ وہ ہر وقت حضرت یوسف کو یاد کرتے، ان کے غم میں روتے اور اللہ سے دعا کرتے کہ یوسف دوبارہ ان سے مل جائے۔


> "وتولى عنهم وقال یا أسفى على یوسف وابیضّت عيناه من الحزن فهو كظيم"

ترجمہ: "اور وہ ان سے منہ موڑ کر کہنے لگے: ہائے افسوس یوسف پر، اور ان کی آنکھیں غم کی شدت سے سفید ہو گئیں، اور وہ ضبط کیے ہوئے تھے۔"





---


10. پیغام:

حضرت یوسف علیہ السلام کے بچپن کا یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ:


اللہ پر بھروسا کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔


صبر ہر آزمائش کا حل ہے۔


حسد کرنے والے اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔


والدین کی دعائیں ہمیشہ رنگ لاتی ہیں۔


بچپن میں دکھ ملیں تو اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔




---


نتیجہ:


حضرت یوسف علیہ السلام کا بچپن ایک عظیم سبق ہے۔ ایک معصوم بچہ جو والد کی گود سے جدا ہو کر غلام بنا دیا جاتا ہے، لیکن اللہ کی رحمت اور اس کے صبر کے نتیجے میں وہی بچہ مصر کا بادشاہ بن جاتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بچپن کا یہ واقعہ قرآن مجید کی 

سورۃ یوسف میں نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے، جو صرف ایک نبی کی کہانی نہیں بلکہ ہر انسان کے لیے صبر، توکل اور اخلاق کا پیغام ہے۔

Post a Comment

0 Comments