حضرت محمد ﷺ کا حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لانے کا واقعہ
تمہید
اسلامی تاریخ محبت، قربانی، وفا اور خلوص سے بھری ہوئی ہے۔ ان واقعات میں ایک اہم واقعہ وہ ہے جب رسول اللہ ﷺ اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ الزہراءؓ کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔ یہ واقعہ نہ صرف نبی کریم ﷺ کی محبتِ پدری کی مثال ہے بلکہ اسلامی گھرانے کی بنیادوں اور آپ ﷺ کے اخلاق و کردار کی عظیم تصویر بھی ہے۔
---
حضرت فاطمہؓ کا مقام و مرتبہ
حضرت فاطمہ الزہراءؓ رسول اللہ ﷺ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی تھیں۔ ان کی ولادت مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپؓ کی تربیت نبی کریم ﷺ نے خود کی، آپ نے بچپن ہی سے والد محترم کے دکھ سہے، شعب ابی طالب کی سختیاں دیکھی، ہجرت کی تکلیفیں برداشت کیں اور پھر مدینہ منورہ میں دین اسلام کی خدمت کی۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
> "فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، جو اسے تکلیف دے، وہ مجھے تکلیف دیتا ہے۔"
(صحیح بخاری)
---
نبی کریم ﷺ کا حضرت فاطمہؓ سے خصوصی تعلق
رسول اللہ ﷺ جب بھی سفر سے واپس آتے، سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے جاتے۔ اُن سے ملتے، اُن کے حال چال پوچھتے، دعائیں دیتے اور محبت بھرے الفاظ سے نوازتے۔
اسی طرح حضرت فاطمہؓ بھی جب نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آتیں تو وہ کھڑے ہو جاتے، اُن کا ہاتھ چومتے، اپنی جگہ بٹھاتے اور شفقت کا مظاہرہ کرتے۔
---
ایک خاص دن کا واقعہ
ایک دن رسول اللہ ﷺ معمول کے مطابق حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لائے۔ وہ دن تھوڑا مختلف تھا۔ آپ ﷺ کے چہرے پر کچھ سنجیدگی کے آثار تھے۔ حضرت فاطمہؓ نے فوراً محسوس کر لیا۔ پوچھا:
> "یا ابا! آج آپ کچھ پریشان معلوم ہوتے ہیں؟"
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
> "بیٹی! امت کے لیے دل غمزدہ ہے، میں سوچتا ہوں کہ میرے بعد ان پر کیا گزرے گی۔"
حضرت فاطمہؓ نے فرمایا:
> "ابا جان! آپ کا دین، آپ کی تعلیمات اور آپ کی دعائیں ہمارے لیے کافی ہیں۔"
---
حضرت علیؓ کا کردار
حضرت علیؓ جو کہ حضرت فاطمہؓ کے شوہر تھے، گھر میں موجود تھے۔ جب نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو انھوں نے فوراً استقبال کیا۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے کہا:
> "علی! تم دونوں دنیا و آخرت میں میرے اہل بیت ہو۔"
پھر نبی کریم ﷺ نے دونوں میاں بیوی کا ہاتھ پکڑا اور ایک چادر اُن پر ڈال کر فرمایا:
> "اللهم هؤلاء أهل بيتي، فاذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا"
(ترجمہ: اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے ہر قسم کی ناپاکی کو دور کر دے اور انھیں پاک و صاف کر دے)
---
اہل بیت کی عظمت
یہ واقعہ دراصل آیت تطہیر کا پس منظر بھی بنتا ہے:
> "إِنَّمَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ ٱلرِّجْسَ أَهْلَ ٱلْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًۭا"
(الاحزاب: 33)
اس آیت کا نزول بھی اسی موقع پر ہوا، جس میں اللہ تعالیٰ نے اہل بیت کی پاکیزگی کی گواہی دی۔
---
حضرت فاطمہؓ کی سادگی
نبی کریم ﷺ جب حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لاتے تو دیکھتے کہ گھر میں بہت کم سامان ہوتا۔ اکثر صرف چکی، ایک چھوٹا سا برتن اور چٹائی ہوتی۔ مگر اس سادگی میں وہ سکون اور روحانیت ہوتی جو شاہی محلوں میں نہیں ہوتی۔
ایک دن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> "بیٹی! کیا تمہیں دنیا کی زینت و آرائش پسند نہیں؟"
حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا:
> "ابا جان! مجھے اللہ اور اس کے رسول کی رضا زیادہ عزیز ہے۔"
---
نبی کریم ﷺ کی دعائیں
نبی کریم ﷺ حضرت فاطمہؓ کے لیے ہمیشہ خصوصی دعائیں فرماتے:
1. "اے اللہ! فاطمہ پر اپنا نور نازل فرما۔"
2. "اے اللہ! ان کے گھر کو برکت عطا فرما۔"
3. "اے اللہ! ان کی اولاد کو دین کا عالم اور شجاع بنا۔"
یہ دعائیں قبول ہوئیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ اسلام کے عظیم ستون بنے۔
---
ایک اور واقعہ: دسترخوان پر برکت
ایک دن رسول اللہ ﷺ حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لائے، دیکھا کہ کھانے کا وقت ہے مگر دسترخوان پر کچھ نہیں۔ حضرت فاطمہؓ نے کہا:
> "ابا جان! آج کچھ نہ پکا۔"
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
> "فاطمہ! بھوک اللہ کے نیک بندوں کا امتحان ہے، مگر اس کے بعد جو رزق آتا ہے، وہ خاص ہوتا ہے۔"
اتنے میں دروازے پر ایک سائل آیا، حضرت فاطمہؓ نے اپنے چادر کا ایک حصہ کاٹ کر اس کو دیا۔ نبی کریم ﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا:
> "فاطمہ! آج تم نے جنت میں اپنا محل خرید لیا۔"
---
فاطمہؓ کی آخری ملاقات
رسول اللہ ﷺ کی بیماری کے دنوں میں حضرت فاطمہؓ روزانہ آتیں، والد محترم کی تیمارداری کرتیں۔ ایک دن نبی کریم ﷺ نے اُن کے کان میں کچھ کہا تو وہ رو پڑیں، پھر کچھ کہا تو مسکرا دیں۔ بعد میں حضرت عائشہؓ نے پوچھا تو بتایا:
> "پہلے ابا جان نے فرمایا کہ میں جلدی اللہ سے جا ملوں گا، اس پر روئی۔ پھر فرمایا کہ تم میرے بعد سب سے پہلے میرے پاس آو گی، اس پر مسکرا دی۔"
یہی ہوا، چند ماہ بعد حضرت فاطمہؓ بھی دنیا سے رخصت ہو گئیں۔
---
نتیجہ
حضرت محمد ﷺ کا حضرت فاطمہؓ کے گھر بار بار آنا ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ:
بیٹیوں کی محبت اور عزت لازم ہے۔
سادگی میں برکت ہے۔
اہل بیت کا مقام اعلیٰ و ارفع ہے۔
اسلام قربانی اور اخلاص کا دین ہے۔
یہ واقعہ صرف ایک تاریخی داستان نہیں، بلکہ عملی سبق ہے ہر مسلمان کے لیے۔
0 Comments