یزید بن معاویہ کی موت کا واقعہ — مکمل اسلامی تاریخی واقعہ
ابتدائی تعارف:
یزید بن معاویہ بن ابو سفیان اموی خلافت کا دوسرا خلیفہ تھا، جس کی پیدائش 26 ہجری میں دمشق کے قریب ہوئی۔ یزید کا دور حکومت تاریخ اسلام کا وہ سیاہ باب ہے جسے امت مسلمہ کبھی فراموش نہیں کر سکی۔ خاص طور پر امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل بیت پر کربلا کے میدان میں ہونے والے مظالم نے یزید کے نام کو نفرت کی علامت بنا دیا۔
یزید نے خلافت کے حصول کے بعد کئی اہم فیصلے کیے جو متنازع ثابت ہوئے۔ وہ شراب نوشی، فحاشی، اور دین سے دوری میں بدنام تھا۔ اس کی زندگی کے کئی پہلو اہل اسلام کے لیے باعث اذیت بنے، اور اسی وجہ سے اکثر علماء اور مورخین اسے فاسق، فاجر اور ظالم قرار دیتے ہیں۔
---
یزید کا دور حکومت:
یزید کا خلافت پر آنا خلافتِ راشدہ کی سادہ اور شفاف روایات سے ہٹ کر تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی میں ہی یزید کے حق میں بیعت لینا شروع کر دی تھی، جو جمہوری اسلامی روایات کے خلاف تھا۔ اہل مدینہ، اہل مکہ، کوفہ اور خاص طور پر حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا۔
یزید کے دور حکومت میں سب سے اندوہناک واقعہ کربلا کا پیش آیا، جس میں امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ اس کے بعد اہل بیت کی خواتین کو قید کر کے شام لے جایا گیا، جس پر امت مسلمہ کے دل آج تک زخمی ہیں۔
---
کربلا کے بعد کے حالات:
کربلا کے واقعے کے بعد یزید کے خلاف بغاوتیں بڑھنے لگیں۔ اہل مدینہ نے یزید کی خلافت کو ماننے سے انکار کر دیا اور اسے خلافت سے معزول کرنے کا اعلان کیا۔ یزید نے مدینہ پر لشکر بھیجا جس کی قیادت مسلم بن عقبہ نے کی، جس نے "واقعہ حرہ" کے نام سے معروف ظلم کیا۔ اس واقعے میں مدینہ کے ہزاروں لوگوں کو شہید کیا گیا، عورتوں کی عصمت دری کی گئی اور مسجد نبوی کی حرمت پامال ہوئی۔
اس کے بعد یزید نے مکہ پر حملہ کیا جہاں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے یزید کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔ یزید کے حکم پر لشکر مکہ روانہ ہوا اور خانہ کعبہ پر منجنیقوں سے حملے کیے گئے۔ اس دور کے تباہ کن حالات نے یزید کے خلاف شدید نفرت کو جنم دیا۔
---
یزید کی ذاتی زندگی:
یزید شراب نوش، شکار پسند، گانے بجانے کا شوقین اور دین سے غافل انسان تھا۔ تاریخی روایات کے مطابق وہ اکثر نشے کی حالت میں رہتا، ناچ گانوں کی محفلیں کرتا اور اسلامی احکام کو مذاق سمجھتا تھا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جیسے عظیم المرتبت شخصیت کی شہادت اس کی خلافت کے دوران ہوئی، جس کا براہِ راست یا بالواسطہ ذمہ دار وہی تھا۔
علماء کا کہنا ہے کہ جو شخص اہل بیت کو شہید کرے، مدینہ و مکہ پر حملہ کرے اور شرعی احکام کا مذاق اڑائے، وہ کسی طور خلیفۃ المسلمین کہلانے کے لائق نہیں ہو سکتا۔
---
یزید کی موت کا واقعہ:
یزید کی موت کی کئی روایات تاریخ میں مذکور ہیں، لیکن زیادہ معتبر روایت کے مطابق وہ 64 ہجری میں صرف 38 سال کی عمر میں دمشق کے قریب ایک قصبے "حوارین" میں ہلاک ہوا۔
کچھ مؤرخین لکھتے ہیں کہ یزید کو پیٹ کی بیماری لاحق ہوئی تھی۔ وہ اکثر شراب نوشی کرتا تھا، جس کے باعث اس کے جگر اور معدہ خراب ہو چکے تھے۔ اس بیماری نے اسے آہستہ آہستہ کمزور کرنا شروع کیا۔ جب وہ بیماری کی حالت میں تھا، تو اس نے مکہ اور مدینہ کے معاملات کی خبر سنی، تو اس کا دل اور زیادہ گھبرا گیا۔
ایک دن اس نے بہت زیادہ شراب پی لی، اور نشے کی حالت میں گھوڑے پر سوار ہو کر نکل گیا۔ دوران سفر گھوڑے سے گر گیا، اور سر پر چوٹ آئی، جس سے وہ بہت زیادہ زخمی ہو گیا۔ یہ زخم اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔
کچھ روایات میں آتا ہے کہ اس نے بیماری کے دوران بہت زیادہ چیخ و پکار کی اور کہنے لگا:
> "کاش! میں حسین کو نہ مارتا۔ کاش! مدینہ کو پامال نہ کرتا۔ کاش! خانہ کعبہ کو نشانہ نہ بناتا۔"
مگر یہ سب کف افسوس کے سوا کچھ نہ تھا۔
---
یزید کی قبر اور مقامِ موت:
یزید کی موت دمشق کے قریب حوارین نامی جگہ پر ہوئی۔ اس کی قبر بھی وہیں بتائی جاتی ہے۔ اس مقام کو آج بھی لوگ "مقام لعنت" کہتے ہیں۔ اہل شام کے درمیان بھی یزید کی کوئی عزت نہیں تھی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا "معاویہ ثانی" خلیفہ بنا، لیکن اس نے چند مہینے بعد ہی خلافت چھوڑ دی اور کہا:
> "میں نہ یزید کی خلافت پر خوش ہوں، نہ اس کے کاموں پر۔"
یہ جملہ بتاتا ہے کہ خود یزید کا بیٹا بھی اس کی روش اور حرکتوں سے بیزار تھا۔
---
یزید کی موت کے بعد خلافت کا انجام:
یزید کی موت کے بعد اموی خلافت کا نظام ڈانواں ڈول ہو گیا۔ کئی جگہوں پر بغاوتیں پھوٹ پڑیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے خلافت کا اعلان کیا اور مکہ کو دارالخلافہ بنایا۔ بنو امیہ کی حکومت کو کافی عرصہ بعد عبد الملک بن مروان نے سنبھالا۔
یزید کی موت کو امت مسلمہ نے ایک راحت کے طور پر دیکھا۔ امام احمد بن حنبل، امام مالک، امام ابو حنیفہ اور دیگر اکابرین امت یزید کو فاسق اور ظالم قرار دیتے تھے۔
---
علماء و صوفیاء کے اقوال یزید کے بارے میں:
1. امام احمد بن حنبل سے سوال کیا گیا: "کیا یزید پر لعنت کی جا سکتی ہے؟"
انہوں نے فرمایا:
> "کیسے نہیں؟ جو شخص امام حسین جیسے عظیم انسان کو قتل کرے، اس پر لعنت واجب ہے۔"
2. امام غزالی نے فرمایا:
> "یزید ایک فاسق اور فاجر انسان تھا، اس کی موت اہل حق کے لیے باعث سکون تھی۔"
3. شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
> "یزید نے اپنے عمل سے اپنی آخرت تباہ کر لی، اور دنیا میں بھی لعنت سمیٹی۔"
---
نتیجہ:
یزید کی زندگی اور موت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ طاقت اور حکومت انسان کو بچا نہیں سکتی، اگر وہ اللہ کی نافرمانی کرے۔ یزید کی موت ایک عبرت ہے ان تمام لوگوں کے لیے جو ظلم و جبر سے حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے نانا ﷺ کے دین کی حفاظت کے لیے جان قربان کر دی، اور یزید نے اپنی زندگی عیش و عشرت میں گزار کر رسوائی سمیٹی۔
0 Comments