حضرت محمد ﷺ کا حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر قیام – مکمل واقعہ
تعارف
نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی زندگی کا ہر لمحہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپ کی ہجرت مدینہ کا واقعہ تاریخِ اسلام کا عظیم ترین لمحہ تھا، جس نے ایک نئی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔ اس مقدس ہجرت کے دوران جو واقعہ سب سے زیادہ محبت، عقیدت اور اخلاص کی تصویر ہے، وہ حضور اکرم ﷺ کا حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر قیام ہے۔
یہ واقعہ نہ صرف محبت و مہمان نوازی کی اعلیٰ مثال ہے بلکہ اس سے ہمیں تواضع، ادب، قربانی، اور خدمتِ رسول ﷺ کا درس بھی ملتا ہے۔
---
ہجرت کا پس منظر
جب اہلِ مکہ نے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ پر ظلم کی انتہا کر دی، تب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو مدینہ ہجرت کا حکم دیا۔ مدینہ کے قبائل اوس اور خزرج پہلے ہی اسلام قبول کر چکے تھے اور حضور ﷺ کی مدینہ آمد کے شدت سے منتظر تھے۔
نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ خاموشی سے مکہ سے روانگی کی اور کئی دنوں کے سفر کے بعد مدینہ کے قریب قبا میں قیام فرمایا، جہاں پہلی مسجد یعنی مسجدِ قبا کی بنیاد رکھی گئی۔ وہاں چودہ دن قیام کے بعد، آپ ﷺ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔
---
مدینہ میں پرجوش استقبال
مدینہ کے باشندے روزانہ صبح مدینہ کی سرحد پر آکر رسول ﷺ کے انتظار میں بیٹھتے اور سورج ڈھلنے کے بعد واپس لوٹتے۔ جب نبی کریم ﷺ کی آمد کی خبر ملی، تو لوگ جوق در جوق خوشی سے آپ ﷺ کے استقبال کو نکلے۔
نوجوان، بچے، بزرگ، عورتیں سب خوشی سے نعرے لگاتے جا رہے تھے:
"طلع البدر علينا من ثنيّات الوداع
وجب الشكر علينا ما دعا لله داع"
(یعنی ہم پر چودھویں کا چاند طلوع ہوا ہے، اور جب تک اللہ کو پکارنے والا رہے گا، ہم پر شکر واجب ہے۔)
---
مدینہ میں داخلہ اور قیام کا مسئلہ
مدینہ کے ہر فرد کی خواہش تھی کہ حضور اکرم ﷺ ان کے گھر قیام فرمائیں۔ ہر کوئی اپنا گھر پیش کر رہا تھا۔ مگر آپ ﷺ نے فرمایا:
"چھوڑ دو میری اونٹنی کو، یہ اللہ کے حکم سے جہاں بیٹھے گی، وہی میرا قیام ہوگا۔"
اونٹنی "قصواء" مدینہ کی گلیوں سے گزرتی ہوئی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر کے سامنے آ کر بیٹھی۔ وہ فوراً دوڑے آئے اور نبی کریم ﷺ کا سامان اٹھا کر اپنے گھر لے گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
"آدمی کو وہیں ٹھہرنا چاہیے جہاں اس کا سامان ہو۔"
---
حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا تعارف
حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا اصل نام خالد بن زید تھا۔ آپ قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے اور مدینہ میں پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ انتہائی مہمان نواز، دیندار اور عشقِ رسول ﷺ میں سرشار انسان تھے۔
---
گھر کی ساخت اور قیام کی تفصیلات
ان کا گھر دو منزلہ تھا۔ انہوں نے درخواست کی کہ نبی ﷺ اوپر والے حصے میں قیام فرمائیں، مگر آپ ﷺ نے فرمایا:
"مجھے نیچے زیادہ سہولت ہوگی کیونکہ لوگ میری زیارت اور ملاقات کے لیے آئیں گے۔"
چنانچہ آپ ﷺ نیچے والے حصے میں قیام پذیر ہوئے اور حضرت ابو ایوبؓ خود اوپر رہنے لگے۔
---
ادب کی اعلیٰ مثال
حضرت ابو ایوبؓ اور ان کی بیوی اس قدر ادب کرتے کہ اوپر چلتے وقت آہستہ قدم رکھتے۔ ایک رات پانی کا برتن ٹوٹ گیا اور وہ خوفزدہ ہو گئے کہ کہیں پانی چھت سے ٹپک کر نبی ﷺ کے پاس نہ جائے۔ انہوں نے فوراً کمبل بچھا کر پانی جذب کر لیا۔
اس واقعے کے بعد انہوں نے اصرار کیا کہ نبی کریم ﷺ اوپر والے حصے میں منتقل ہو جائیں، کیونکہ ان کا ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ وہ نبی ﷺ کے اوپر رہیں۔ حضور ﷺ نے ان کے خلوص کو دیکھتے ہوئے ان کی بات مان لی۔
---
روزمرہ کی خدمت
حضرت ابو ایوبؓ اور ان کی بیوی روزانہ نبی ﷺ کے لیے کھانا تیار کرتے۔ جو کھانا بچ جاتا، وہ ادب سے واپس لے آتے اور اسے کھاتے، تاکہ رسول ﷺ کے ہاتھ لگے کھانے سے برکت حاصل کریں۔
ایک دن لہسن والا کھانا دیا تو نبی کریم ﷺ نے نہ کھایا۔ حضرت ابو ایوبؓ نے وجہ پوچھی تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"مجھے اس سے نفرت نہیں، مگر میں اس سے پرہیز کرتا ہوں کیونکہ میں فرشتوں سے بات کرتا ہوں۔"
---
مسجد نبوی کی تعمیر
نبی ﷺ کے قیام کے دوران مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی۔ مسجد کے ساتھ حجرات بھی تعمیر کیے گئے، جن میں امہات المؤمنینؓ کے لیے رہائش گاہیں تھیں۔ مسجد نبوی کی تعمیر میں خود نبی ﷺ نے مزدوری کی اور صحابہ کرامؓ کے ساتھ اینٹیں اٹھائیں۔
حضرت ابو ایوبؓ اس تعمیر میں بھی پیش پیش رہے۔
---
قیام کی مدت اور الوداع
نبی کریم ﷺ نے تقریباً آٹھ ماہ حضرت ابو ایوبؓ کے گھر قیام فرمایا۔ جب مسجد نبوی اور حجرات مکمل ہو گئے تو آپ ﷺ اپنے حجرہ میں منتقل ہو گئے۔ مگر حضرت ابو ایوبؓ کا مقام ہمیشہ بلند رہا۔
---
حضرت ابو ایوبؓ کا جذبہ جہاد
نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد بھی حضرت ابو ایوبؓ دین کی خدمت میں پیش پیش رہے۔ خلافتِ ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓ کے دور میں ہر جنگ میں شریک ہوئے۔
خلیفہ معاویہؓ کے دور میں قسطنطنیہ (استنبول) کی فتح کے لیے بھی جہاد میں شریک ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر 80 سال سے زائد تھی، مگر وہ جہاد سے باز نہ آئے۔
---
وصال اور تدفین
قسطنطنیہ کے قریب وہ بیمار ہوئے اور وصال فرمایا۔ آپ کی آخری خواہش تھی:
"مجھے دشمن کی سرزمین میں دفن کیا جائے تاکہ قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ کو دکھا سکوں کہ میں نے دین کے لیے جان دی۔"
سپہ سالار یزید بن معاویہ نے آپ کو دیوارِ قسطنطنیہ کے قریب دفن کیا۔ آپ کی قبر آج بھی استنبول میں "ایوب سلطان" کے نام سے مشہور ہے، جہاں لاکھوں زائرین حاضری دیتے ہیں۔
---
سبق آموز پہلو
1. ادب و احترام کا مقام
حضرت ابو ایوبؓ کا احترام اور ادب ہمیں سکھاتا ہے کہ رسول ﷺ سے محبت کا تقاضا کیا ہے۔
2. مہمان نوازی کی اعلیٰ مثال
بغیر کسی دنیاوی لالچ کے رسول ﷺ کی خدمت کرنا ان کے خلوص کو ظاہر کرتا ہے۔
3. خدمتِ دین میں عمر کی قید نہیں
حضرت ابو ایوبؓ نے بڑھاپے میں بھی دین کی راہ میں جان دی۔
4. تواضع اور سادگی
نبی ﷺ کا نیچے والے حصے میں قیام فرمانا ان کی سادگی اور امت سے قربت کا ثبوت ہے۔
---
نتیجہ
حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا گھر وہ مبارک مقام ہے جہاں نبی کریم ﷺ نے مدینہ ہجرت کے بعد پہلی رہائش اختیار کی۔ ان کا ادب، محبت، خدمت اور قربانی ہمیں ہمیشہ یہ سکھاتا رہے گا کہ دینِ اسلام میں نبی ﷺ سے عشق صرف زبان سے نہیں، بلکہ عمل سے ہوتا ہے۔
0 Comments