hazrat abrahim aliya alsalam or namrud ka waqa

 


      حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کا واقعہ



ابتدائی پس منظر


حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے جلیل القدر پیغمبروں میں سے تھے، جنہیں "ابوالانبیاء" یعنی پیغمبروں کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ آپ عراق کے شہر "اُر" میں پیدا ہوئے، جسے آج کل جنوبی عراق کہا جاتا ہے۔ اُس وقت دنیا میں شرک عام تھا اور ہر طرف بت پرستی کا راج تھا۔ لوگوں نے بڑے بڑے بت بنائے ہوئے تھے جنہیں وہ خدائی درجہ دیتے تھے۔ حضرت ابراہیمؑ کا والد "آزر" بھی بت تراش اور مشرک تھا۔

نمرود کون تھا؟

نمرود (Namrud bin Canaan) اُس وقت کا ایک ظالم بادشاہ تھا۔ اُس نے اپنی سلطنت کو زبردستی لوگوں پر تھوپ رکھا تھا۔ اُس نے خود کو "خدا" قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ زندگی اور موت کا اختیار اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اُس کا دربار شان و شوکت سے بھرا ہوتا، جہاں وہ اپنے غرور میں لوگوں کو اپنے آگے جھکنے پر مجبور کرتا۔ کوئی اُس کے خلاف بولنے کی جرات نہ کرتا تھا۔

حضرت ابراہیمؑ کی دعوتِ توحید


حضرت ابراہیمؑ نے بچپن سے ہی شرک اور بت پرستی کو ناپسند کیا۔ ایک دن آپ نے اپنی قوم سے سوال کیا:

> "یہ کیا چیزیں ہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو؟"



قوم نے جواب دیا: "یہ ہمارے آبا و اجداد کے معبود ہیں۔"

حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا: "تم اور تمہارے باپ دادا کھلی گمراہی میں ہو۔"

انہوں نے اپنی قوم کو بار بار توحید کی طرف بلایا، مگر انہوں نے حضرت ابراہیمؑ کا مذاق اڑایا اور کہا کہ وہ جوان ہے، ناسمجھ ہے۔

بتوں کا توڑنا

حضرت ابراہیمؑ نے ایک دن موقع پا کر مندر میں رکھے تمام بتوں کو توڑ دیا، صرف بڑے بت کو چھوڑ دیا اور اُس کے کندھے پر کلہاڑی رکھ دی۔ جب لوگ مندر میں داخل ہوئے اور دیکھا کہ تمام بت ٹوٹے پڑے ہیں تو وہ چیخ اُٹھے:

> "یہ کس نے کیا؟"



کسی نے کہا: "ہم نے سنا ہے کہ ابراہیم نامی نوجوان ان بتوں کے بارے میں برا کہتا ہے۔"

اب وہ حضرت ابراہیمؑ کو لے آئے۔ حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا:

> "یہ کام اُس بڑے بت نے کیا ہوگا، پوچھ لو اُس سے!"



لوگ خاموش ہو گئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بت بول نہیں سکتے۔ حضرت ابراہیمؑ نے ان کے عقیدے کی خامی ظاہر کر دی۔

نمرود کے دربار میں حاضری


جب نمرود کو حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ آگ بگولا ہو گیا۔ اُس نے حکم دیا کہ ابراہیمؑ کو دربار میں پیش کیا جائے۔

نمرود نے پوچھا: "تمہارا رب کون ہے؟"

حضرت ابراہیمؑ نے جواب دیا:

> "میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔"



نمرود نے غرور سے کہا: "میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔"

اُس نے دو قیدیوں کو بلایا، ایک کو قتل کر دیا اور دوسرے کو چھوڑ دیا اور کہا: "دیکھا میں بھی زندہ مارتا ہوں!"

حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا:

> "میرا رب سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تُو اسے مغرب سے نکال کر دکھا۔"



یہ بات سن کر نمرود لاجواب ہو گیا۔ وہ کوئی جواب نہ دے سکا اور اپنے درباریوں کے سامنے شرمندہ ہو گیا۔

آگ میں ڈالنے کا منصوبہ


نمرود نے انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے حکم دیا کہ ابراہیمؑ کو زندہ جلا دیا جائے۔ اُس نے سب سے بڑی آگ جلانے کا حکم دیا۔ کئی دنوں تک لکڑیاں اکٹھی کی گئیں۔ آگ اتنی بڑی تھی کہ اُس کے قریب جانا ممکن نہ تھا۔ حضرت ابراہیمؑ کو ایک منجنیق (گولا پھینکنے والی مشین) میں باندھ کر آگ میں پھینکنے کا حکم دیا گیا۔

فرشتے آسمان سے اُترے اور پوچھا: "کیا مدد چاہیے؟"

حضرت ابراہیمؑ نے کہا: "اللہ مجھے کافی ہے، وہی میرا کارساز ہے۔"

اللہ کا معجزہ

جب حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں پھینکا گیا تو اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا:

> "اے آگ! ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کے لیے سلامتی والی ہو جا!"
(سورہ الانبیاء: 69)



آگ حضرت ابراہیمؑ کو کوئی نقصان نہ دے سکی۔ وہ سلامتی سے باہر آ گئے۔ یہ معجزہ دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے، مگر نمرود کے دل پر پھر بھی مہر لگی رہی۔

نمرود کی ضد اور انجام


نمرود اپنی ضد پر قائم رہا۔ اُس نے آسمان پر چڑھنے کا منصوبہ بنایا تاکہ اللہ سے لڑ سکے۔ اس نے ایک بہت بڑا قلعہ بنوایا اور پرندوں کی مدد سے آسمان کی طرف اڑنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ منصوبہ ناکام رہا۔

ایک دن اللہ تعالیٰ نے ایک معمولی مچھر بھیجا، جو نمرود کی ناک میں گھس گیا۔ وہ مچھر اُس کے دماغ میں گھس گیا اور درد کی شدت سے وہ چیختا رہتا۔ اُس کا علاج یہ نکالا گیا کہ اُس کے سر پر جوتے مارے جائیں تاکہ درد کم ہو۔ کئی دنوں تک یہی عمل جاری رہا، یہاں تک کہ نمرود درد سے تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ یہ اُس ظالم بادشاہ کا انجام تھا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا۔


---

📖 نمرود کے واقعے سے سبق


1. توحید کا پیغام ہمیشہ غالب رہتا ہے: حضرت ابراہیمؑ کی استقامت اور سچائی نے شرک کے نظام کو ہلا کر رکھ دیا۔


2. ظلم کا انجام برا ہوتا ہے: نمرود جیسا طاقتور بادشاہ بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکا۔


3. اللہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے: آگ حضرت ابراہیمؑ کے لیے ٹھنڈی ہو گئی، یہ اللہ کی قدرت کی نشانی ہے۔


4. باطل ہمیشہ لاجواب ہوتا ہے: نمرود نے مغرب سے سورج نکالنے کی دلیل پر کوئی جواب نہ دیا۔




---

🔖 خلاصہ


حضرت ابراہیم علیہ السلام نے توحید کا علم بلند کیا اور نمرود جیسے سرکش بادشاہ کے سامنے بھی ڈٹے رہے۔ نمرود نے اللہ کے نبی کو آگ میں جلانے کی کوشش کی، مگر اللہ نے حضرت ابراہیمؑ کو بچا لیا اور نمرود کو ایک معمولی مچھر سے ہلاک کر دیا۔

Post a Comment

0 Comments