حضرت محمد ﷺ کی اللہ تعالیٰ سے ملاقات
ابتدائی تمہید
حضرت محمد ﷺ کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو اسلامی تاریخ کا سب سے منفرد اور روحانی تجربہ تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمانوں کی سیر کا تحفہ دیا گیا، جسے ہم معراج النبی ﷺ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ سفر محض جسمانی نہیں بلکہ روحانی و جسمانی دونوں لحاظ سے تھا۔ اس واقعے کا مقصد نہ صرف رسول اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا دیدار کرانا تھا بلکہ اُمت کے لیے نماز کا تحفہ دینا بھی تھا۔
واقعہ کا پس منظر
واقعہ معراج اُس وقت پیش آیا جب حضور اکرم ﷺ مکہ مکرمہ میں کفار کے ظلم و ستم کا شکار تھے۔ اس سال کو "عام الحزن" یعنی غم کا سال کہا جاتا ہے، کیونکہ اُسی سال آپ کی زوجہ حضرت خدیجہؓ اور آپ کے چچا حضرت ابو طالب وفات پا گئے۔ ایسے غم کے عالم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو تسلی دینے کے لیے معراج کی شکل میں یہ عظیم الشان واقعہ پیش فرمایا۔
واقعہ معراج کی شروعات – مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ
حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک خاص سواری "بُراق" لے کر حاضر ہوئے۔ براق ایک ایسی سواری تھی جو روشنی کی رفتار سے بھی تیز چلتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ کا سفر کیا، جہاں آپ نے تمام انبیاء کرام کی امامت کر کے نماز ادا کی۔ اس موقع پر تمام انبیاء نے آپ کی نبوت اور فضیلت کو تسلیم کیا۔
آسمانوں کی سیر
اس کے بعد آسمانوں کا روحانی سفر شروع ہوا۔ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہر آسمان پر گئے جہاں مختلف انبیاء کرام سے ملاقات ہوئی:
1. پہلا آسمان: حضرت آدم علیہ السلام
2. دوسرا آسمان: حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام
3. تیسرا آسمان: حضرت یوسف علیہ السلام
4. چوتھا آسمان: حضرت ادریس علیہ السلام
5. پانچواں آسمان: حضرت ہارون علیہ السلام
6. چھٹا آسمان: حضرت موسیٰ علیہ السلام
7. ساتواں آسمان: حضرت ابراہیم علیہ السلام
ہر نبی نے رسول اللہ ﷺ کا خیر مقدم کیا اور ان کی عظمت کو سراہا۔
سدرۃ المنتہیٰ – آخری حد
آسمانوں کے بعد رسول اللہ ﷺ کو ایک مقام تک لے جایا گیا جسے سدرۃ المنتہیٰ کہا جاتا ہے۔ یہ مقام وہ حد ہے جہاں سے آگے کوئی مخلوق نہیں جا سکتی، حتیٰ کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی وہیں رک گئے۔ جبرائیلؑ نے عرض کیا:
> "یا رسول اللہ ﷺ! اگر میں اس سے آگے گیا تو جل جاؤں گا، مگر آپ جا سکتے ہیں۔"
اللہ تعالیٰ سے ملاقات
پھر رسول اللہ ﷺ نے تنِ تنہا وہ عظیم مقام طے کیا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچے۔ یہ ایسی ملاقات تھی جس کی کوئی مثال نہیں۔ قرآن میں اس کا ذکر سورۃ النجم میں موجود ہے:
> ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیۙ(8) فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ(9)
"پھر وہ قریب ہوا اور اور بھی قریب، یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔"
یہ وہ وقت تھا جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو وہ کچھ دکھایا جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ بعض علماء کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے نور کا جلوہ دکھایا، جبکہ بعض کے مطابق اللہ تعالیٰ نے بغیر حجاب کے رسول اللہ ﷺ سے ہمکلامی فرمائی۔
نماز کا تحفہ
اللہ تعالیٰ نے اس ملاقات میں رسول اللہ ﷺ کو امت مسلمہ کے لیے پچاس نمازوں کا حکم دیا۔ جب رسول اللہ ﷺ واپس جا رہے تھے، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ کی امت یہ بوجھ نہیں اٹھا سکے گی، آپ واپس جا کر تخفیف کی درخواست کریں۔ رسول اللہ ﷺ بار بار واپس گئے اور ہر بار اللہ تعالیٰ نے کچھ نمازیں معاف کر دیں، یہاں تک کہ پانچ نمازیں رہ گئیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
> "یہ پانچ نمازیں ہیں مگر اجر پچاس نمازوں کے برابر دیا جائے گا۔"
جنت اور دوزخ کا مشاہدہ
اس سفر کے دوران رسول اللہ ﷺ کو جنت اور دوزخ کا مشاہدہ بھی کرایا گیا۔ آپ نے جنت میں انعامات اور دوزخ میں سزائیں دیکھیں تاکہ امت کو نصیحت ملے۔ آپ نے دیکھا کہ سود خور، زانی، غیبت کرنے والے، اور جھوٹے لوگوں کو سخت سزائیں دی جا رہی تھیں۔
واپسی کا سفر
رسول اللہ ﷺ اسی رات واپس مکہ تشریف لائے۔ صبح جب آپ نے لوگوں کو یہ واقعہ سنایا، تو کفار قریش نے اس کا مذاق اُڑایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی رات میں مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ، پھر آسمانوں کی سیر اور پھر واپس؟ مگر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فوراً تصدیق کرتے ہوئے فرمایا:
> "اگر محمد ﷺ نے فرمایا ہے تو وہ سچ ہے۔"
اسی لیے انہیں "صدیق" کا لقب ملا۔
قرآن میں ذکر
اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو قرآن مجید میں دو جگہ بیان فرمایا:
1. سورۃ الاسراء:
> "سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى..."
(آیت 1)
2. سورۃ النجم:
واقعہ معراج کی روحانی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
---
معراج کا سبق
اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔
مشکلات کے بعد آسانی آتی ہے۔
نماز اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا تحفہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کے دیدار کے لیے پاکیزگی، صدق، اور اطاعت ضروری ہے۔
0 Comments