بالکل! نیچے حضرت یوسف علیہ السلام کا مکمل واقعہ
تعارف
حضرت یوسف علیہ السلام اللہ کے نبی اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ آپ کا شمار اُن عظیم پیغمبروں میں ہوتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے خاص حکمت، حسن، صبر، اور علم عطا کیا۔ قرآن مجید کی سورۃ یوسف مکمل طور پر آپ کے واقعے پر مشتمل ہے، جو ایک بے مثال اور دل کو چھو لینے والی داستان ہے۔
---
پیدائش اور ابتدائی زندگی
حضرت یوسف علیہ السلام کی پیدائش کنعان میں ہوئی۔ آپ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں میں سے ایک تھے اور اپنے والد کے سب سے زیادہ لاڈلے تھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو یوسف علیہ السلام سے بے حد محبت تھی، کیونکہ وہ نہایت حسین، پاکیزہ اور نیک طبع انسان تھے۔
---
خواب اور حسد
ایک دن حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ سورج، چاند اور گیارہ ستارے انہیں سجدہ کر رہے ہیں۔ جب انہوں نے یہ خواب اپنے والد سے بیان کیا، تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ خواب ایک بڑی حقیقت کی طرف اشارہ ہے، لیکن انہوں نے تاکید کی کہ اس خواب کو اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا کیونکہ وہ حسد کریں گے۔
حضرت یعقوب کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے دل میں حسد بھڑک اٹھا اور انہوں نے ایک منصوبہ بنایا کہ یوسف کو راستے سے ہٹا دیں تاکہ والد کی محبت صرف انہی کو ملے۔
---
یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینکنا
یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے والد سے جھوٹ بول کر یوسف کو ساتھ لے جانے کی اجازت لی اور پھر ایک سنسان مقام پر جا کر انہیں ایک گہرے کنویں میں پھینک دیا۔ بعد میں گھر آ کر جھوٹ بولا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ہے اور جھوٹے خون سے رنگا ہوا قمیص والد کو دکھایا۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے یہ سن کر غم کا اظہار کیا لیکن اللہ پر بھروسہ رکھا۔ وہ دل سے جانتے تھے کہ یوسف زندہ ہے۔
---
یوسف علیہ السلام کا بازار مصر پہنچنا
اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کی حفاظت فرمائی اور ایک قافلہ وہاں سے گزرا۔ انہوں نے یوسف کو کنویں سے نکالا اور مصر لے جا کر بازار میں غلاموں کے طور پر بیچ دیا۔ مصر کے بادشاہ کے وزیر عزیزِ مصر نے یوسف علیہ السلام کو خریدا اور اپنی بیوی کو کہا کہ اس کا خیال رکھنا، یہ بچہ خاص ہے۔
---
عزیزِ مصر کے گھر کی آزمائش
یوسف علیہ السلام جب جوان ہوئے تو خوبصورت اور دانا بن چکے تھے۔ عزیزِ مصر کی بیوی زلیخا نے ان پر بری نظر ڈالی، لیکن یوسف نے اللہ سے ڈر کر انکار کیا۔ زلیخا نے جھوٹا الزام لگایا اور یوسف کو قید میں ڈال دیا گیا۔
---
قید خانہ اور خوابوں کی تعبیر
قید خانے میں یوسف علیہ السلام نے دو قیدیوں کے خواب کی سچی تعبیر بتائی، جس میں ایک کو بادشاہ کا ساقی اور دوسرے کو سولی چڑھنے والا بتایا۔ جو ساقی رہا ہوا، بعد میں بادشاہ کے پاس گیا جب اسے خواب آیا کہ سات موٹی گائیں اور سات دبلی گائیں، اور سات سبز خوشے اور سات خشک خوشے نظر آ رہے ہیں۔
---
بادشاہ کا خواب اور رہائی
بادشاہ نے جب یوسف کا نام سنا تو اسے بلوایا گیا۔ یوسف علیہ السلام نے پہلے اپنی بے گناہی ثابت کروانے پر زور دیا اور زلیخا نے خود اپنے گناہ کا اعتراف کیا۔ یوسف علیہ السلام کی عظمت اور سچائی کی وجہ سے انہیں قید سے باعزت رہائی ملی اور بادشاہ نے انہیں خزانے کا نگران مقرر کر دیا۔
---
قحط سالی اور بھائیوں کی آمد
قحط سالی کے دنوں میں یوسف علیہ السلام اناج تقسیم کرتے تھے۔ اُن کے بھائی اناج لینے مصر آئے، لیکن یوسف علیہ السلام نے خود کو ظاہر نہ کیا۔ انہوں نے ایک منصوبے کے تحت اپنے بھائی بنیامین کو روک لیا تاکہ اپنے والد کو بھی مصر بلا سکیں۔
---
حضرت یعقوب کی بینائی اور ملاقات
جب یعقوب علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ یوسف زندہ ہیں، تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے مصر روانہ ہوئے۔ یوسف علیہ السلام نے جب اپنے والد کو دیکھا تو وہ اُن کے قدموں میں گر گئے۔ اللہ نے یعقوب علیہ السلام کو ان کی بینائی واپس عطا کی۔
یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور فرمایا:
"اے میرے رب! تُو نے مجھے سلطنت دی اور مجھے خوابوں کی تعبیر سکھائی۔"
(سورۃ یوسف، آیت 101)
---
حکمت اور اخلاق
حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ:
صبر سب سے بڑی طاقت ہے۔
حسد ایک تباہ کن عمل ہے۔
اللہ پر بھروسہ رکھنے والے کو عزت ملتی ہے۔
عفو و درگزر سے دل جیتے جاتے ہیں۔
انہوں نے اپنے بھائیوں کو معاف کر دیا، حالانکہ وہ انہیں کنویں میں پھینک چکے تھے۔ یہ اعلیٰ کردار کی نشانی ہے۔
---
وفات
حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات مصر میں ہوئی۔ آپ نے اپنی وفات سے پہلے وصیت کی کہ جب بنی اسرائیل مصر سے نکلیں تو ان کی لاش کنعان لے جائی جائے۔ یہ وصیت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوری کی۔
---
نتیجہ
حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ پر یقین، صبر، سچائی اور حسنِ اخلاق کی روشن مثال ہے۔ ان کی سیرت نہ صرف نوجوانوں کے لیے رہنمائی ہے بلکہ ہر انسان کے لیے سبق آموز ہے کہ مشکلات جتنی بھی بڑی ہوں، اللہ کی رحمت اُن سے کہیں زیادہ وسیع ہوتی ہے۔
0 Comments