حضرت خدیجہؓ اور حضور اکرم ﷺ کے نکاح کا واقعہ
تعارف:
اسلام کی تاریخ میں چند ایسی عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے دین اسلام کی بنیادوں کو استوار کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ انہی میں سے ایک محترمہ حضرت خدیجہ بنت خویلدؓ ہیں، جو نہ صرف نبی کریم ﷺ کی پہلی زوجہ تھیں بلکہ آپؓ کو "ام المؤمنین" کا عظیم مقام حاصل ہے۔ حضرت خدیجہؓ کا نکاح نبی کریم ﷺ سے ایک ایسا عظیم واقعہ ہے جس میں وفا، اخلاص، ایمان اور عزت کا بھرپور رنگ جھلکتا ہے۔
---
حضرت خدیجہؓ کا خاندانی پس منظر:
حضرت خدیجہؓ کا تعلق قریش کے معزز اور امیر خاندان بنو اسد سے تھا۔ ان کے والد خویلد بن اسد ایک معزز اور دولت مند تاجر تھے۔ حضرت خدیجہؓ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدة تھا۔ حضرت خدیجہؓ کو جاہلیت کے زمانے میں بھی "طاہرہ" کے لقب سے پکارا جاتا تھا کیونکہ وہ نہایت پاکدامن، بااخلاق اور سچائی کی پیکر تھیں۔
---
تجارت میں مہارت:
حضرت خدیجہؓ نے اپنے والد سے تجارت کے اصول سیکھے اور ان کے انتقال کے بعد اپنے کاروبار کو نہایت دانشمندی سے چلایا۔ وہ مکہ کی کامیاب ترین تاجر خواتین میں شمار ہوتی تھیں۔ ان کے قافلے شام، یمن، اور عراق تک تجارت کے لیے جاتے تھے۔
حضرت خدیجہؓ کاروبار کے لیے ایماندار اور تجربہ کار افراد کی خدمات حاصل کرتی تھیں اور انہی دنوں انہیں ایک ایماندار نوجوان محمد بن عبداللہ ﷺ کے بارے میں علم ہوا، جنہیں صادق اور امین کے لقب سے جانا جاتا تھا۔
---
حضرت خدیجہؓ کی پہلی ملاقات نبی کریم ﷺ سے:
جب حضرت خدیجہؓ نے حضور ﷺ کی دیانت داری اور شہرت سنی تو آپؓ نے اپنے غلام ميسرہ کو بھیجا کہ وہ نبی کریم ﷺ کو تجارت کے لیے قافلہ لے جانے کی دعوت دیں۔
حضور ﷺ نے حضرت ابو طالب سے مشورہ کیا اور پھر قریش کے دستور کے مطابق حضرت خدیجہؓ کا مال لے کر شام روانہ ہوئے۔ ميسرہ بھی ساتھ تھے۔
---
تجارت کے سفر میں حیرت انگیز واقعات:
اس سفر کے دوران ميسرہ نے نبی کریم ﷺ کی سچائی، دیانت داری، اور اللہ پر توکل کا مشاہدہ کیا۔ ایک واقعہ مشہور ہے کہ جب آپ ﷺ ایک درخت کے نیچے آرام فرما رہے تھے، وہاں ایک راہب نے ميسرہ سے کہا:
"یہ شخص نبی آخر الزمان ہے۔ یہ وہی درخت ہے جس کے نیچے نبیوں کے سوا کوئی نہیں بیٹھا۔"
کاروباری سفر انتہائی کامیاب رہا۔ نفع معمول سے کئی گنا زیادہ تھا، اور ميسرہ نے حضرت خدیجہؓ کو نبی ﷺ کی شخصیت کے متعلق مکمل واقعات سنائے۔
---
نکاح کی پیشکش:
حضرت خدیجہؓ کی عمر اس وقت تقریباً 40 سال اور حضور اکرم ﷺ کی عمر 25 سال تھی۔ حضرت خدیجہؓ نے جب حضور ﷺ کی ایمانداری، پاکیزگی، شرافت، اور اخلاق کا مشاہدہ کیا تو ان کے دل میں نبی اکرم ﷺ کے لیے رغبت پیدا ہوئی۔
انہوں نے اپنے قریبی دوست نفیسہ بنت منیہ کے ذریعے نکاح کی خواہش کا اظہار کیا۔
نفیسہ نے نبی کریم ﷺ سے ملاقات کی اور کہا:
"آپ نکاح کیوں نہیں کرتے؟"
آپ ﷺ نے فرمایا: "میرے پاس نکاح کے لیے وسائل نہیں ہیں۔"
نفیسہ نے کہا: "اگر کوئی مالدار، خوبصورت، بااخلاق اور شرافت والی عورت نکاح کی خواہش رکھے تو؟"
نبی ﷺ نے پوچھا: "کون؟"
نفیسہ نے فرمایا: "خدیجہ بنت خویلد۔"
---
نکاح کی تیاری:
نبی کریم ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب سے مشورہ کیا۔ ابو طالب، حضرت حمزہ اور دیگر رشتہ دار حضرت خدیجہؓ کے گھر گئے۔ حضرت خدیجہؓ کے چچا عمر بن اسد نے نکاح کی ذمہ داری سنبھالی کیونکہ حضرت خویلد کا انتقال ہو چکا تھا۔
---
نکاح کی تقریب:
نکاح نہایت سادہ، پُرعزت اور باوقار انداز میں ہوا۔
نبی کریم ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کو 20 اونٹوں کے برابر مال بطور مہر دیا۔ ابو طالب نے نکاح کا خطبہ دیا، جس میں انہوں نے نبی کریم ﷺ کی تعریف کی:
"محمد بن عبداللہ ﷺ ان سب لوگوں سے افضل ہیں جو قریش میں ہیں۔ وہ اخلاق میں بہتر، دیانت میں اعلیٰ اور حسب نسب میں سب سے برتر ہیں۔"
حضرت خدیجہؓ نے خود بھی یہ نکاح نہایت خوشی سے قبول کیا اور یہ زندگی کا سب سے بابرکت رشتہ ثابت ہوا۔
---
ازدواجی زندگی کا آغاز:
نکاح کے بعد حضرت خدیجہؓ نے اپنی تمام دولت نبی کریم ﷺ کے حوالے کر دی اور کہا:
"یہ سب آپ کا ہے۔ جیسے چاہیں استعمال کریں۔"
آپؓ نبی ﷺ سے بے پناہ محبت کرتی تھیں اور ہر قدم پر آپ کا ساتھ دیتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپؓ کو "ام المومنین" اور اسلام کی پہلی مومنہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
---
اولاد:
اللہ تعالیٰ نے اس نکاح سے نبی کریم ﷺ کو چھے اولاد عطا فرمائیں:
1. حضرت قاسم (ؓبچپن میں وفات پا گئے)
2. حضرت زینبؓ
3. حضرت رقیہؓ
4. حضرت ام کلثومؓ
5. حضرت فاطمہ الزہراؓ
6. حضرت عبداللہ (ؓبچپن میں انتقال کر گئے)
تمام بیٹیاں اسلام قبول کرنے والی اور نیک سیرت تھیں، جبکہ حضرت فاطمہؓ سے نبی کریم ﷺ کی نسل آگے بڑھی۔
---
وحی کا نزول اور حضرت خدیجہؓ کا کردار:
جب نبی کریم ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ ﷺ گھر واپس تشریف لائے تو آپ ﷺ نہایت گھبراہٹ میں تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے آپ کو دلاسا دیا اور کہا:
"اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، یتیموں کا سہارا بنتے ہیں، اور حق داروں کا حق ادا کرتے ہیں۔"
حضرت خدیجہؓ نبی کریم ﷺ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جنہوں نے بتایا کہ آپ ﷺ پر وہی فرشتہ نازل ہوا ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوتا تھا۔
---
حضرت خدیجہؓ کا ایمان:
حضرت خدیجہؓ وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ آپؓ نے نبی ﷺ کا ساتھ ہر تکلیف اور آزمائش میں دیا۔ شعب ابی طالب میں جب مسلمانوں کا بائیکاٹ کیا گیا، تو حضرت خدیجہؓ نے اپنا سارا مال مسلمانوں پر خرچ کر دیا۔
---
حضرت خدیجہؓ کا انتقال:
نبی کریم ﷺ حضرت خدیجہؓ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ جب حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوا تو آپ ﷺ کو شدید صدمہ ہوا۔ اسی سال کو "عام الحزن" یعنی غم کا سال کہا جاتا ہے۔
آپ ﷺ نے ان کی قبر خود تیار کروائی اور نہایت رنج کے عالم میں انہیں سپرد خاک کیا۔
---
نبی کریم ﷺ کی محبت:
حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعد بھی نبی ﷺ ان کا ذکر ہمیشہ محبت اور عقیدت سے کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
"میں نے کسی عورت سے اتنی غیرت محسوس نہیں کی جتنی حضرت خدیجہؓ سے، حالانکہ میں نے انہیں دیکھا بھی نہیں۔ لیکن نبی کریم ﷺ ہر وقت ان کا ذکر کرتے رہتے تھے۔"
---
نتیجہ:
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور نبی کریم ﷺ کے نکاح کا واقعہ ایک مثالی رشتہ ہے، جو وفاداری، اخلاص، محبت اور قربانی سے بھرپور ہے۔ ان کا کردار تمام مسلمانوں، خاص کر خواتین کے لیے ایک عظیم نمونہ ہے۔
ان کا نکاح تاریخ اسلام کا ایک اہم اور بابرکت واقعہ ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں سکون اور استقامت پیدا کی۔
0 Comments