9 محرم الحرام کا کربلا کا مکمل واقعہ - امام حسینؑ کی عظیم قربانی اور سبق آموز داستان

 


9 محرم الحرام کا واقعہ کربلا – مکمل تفصیل


اسلامی تاریخ میں 9 محرم الحرام کا دن ایک اہم اور المناک دن ہے۔ یہ وہ دن ہے جب ظلم کے مقابلے میں حق کی سب سے بڑی اور لازوال قربانی کی تیاری مکمل ہوئی۔ کربلا کی سرزمین پر امام حسین علیہ السلام اور ان کے وفادار ساتھیوں نے انسانیت کو ایک عظیم سبق دیا کہ دین اسلام اور حق کی سربلندی کے لیے جان کی قربانی بھی ایک عظیم عبادت ہے۔


پس منظر


حضرت امام حسین علیہ السلام، نواسۂ رسولﷺ، دین اسلام کی سچائی اور اصولوں کی حفاظت کے لیے مکہ مکرمہ سے کربلا کی طرف روانہ ہوئے۔ امام حسینؑ نے یزید بن معاویہ کی بیعت کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا کیونکہ یزید اسلامی اقدار کے خلاف اور ظلم و جبر کی راہ پر گامزن تھا۔ امام حسینؑ کا مقصد امت کو یزید جیسے ظالم حکمران کی اطاعت سے بچانا اور حق کا علم بلند کرنا تھا۔


جب امام حسینؑ کربلا پہنچے تو یزیدی لشکر نے ان کا راستہ روک لیا۔ اہل بیت کے قافلے پر پانی بند کر دیا گیا، بچوں، خواتین، اور بزرگوں کو پیاسا رکھا گیا۔ اس ظلم کے باوجود امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں نے صبر، استقامت، اور اللہ پر بھروسے کی مثال قائم کی۔


9 محرم کی صبح


9 محرم کی صبح یزیدی لشکر کی طرف سے جنگ کی تیاریاں تیز ہو گئیں۔ لشکر کے سپہ سالار عمر بن سعد نے حکم دیا کہ حسینؑ کے خیموں کا محاصرہ مزید سخت کر دیا جائے۔ پانی کی رسائی پہلے ہی بند تھی۔ امام حسینؑ کے خیموں میں پیاس کی شدت بڑھتی جا رہی تھی۔ بچوں کی زبانیں خشک ہو گئیں، اور اہل بیت کی خواتین بچوں کے لیے پانی کی فریاد کر رہی تھیں۔


امام حسینؑ کی طرف سے حضرت عباسؑ، جو علمبردار تھے، نے نہر فرات کی طرف جانے کی کوشش کی مگر دشمن نے راستہ بند کر دیا۔ پانی کی ایک ایک بوند قافلے کے لیے قیمتی ہو گئی تھی۔


شمر کا پیغام


اسی دن شمر ذی الجوشن، جو یزیدی لشکر کا ایک اہم سپاہی تھا، امام حسینؑ کے پاس آیا اور کہا: "حسین! تمہیں ابن زیاد کی طرف سے امان ہے۔ تم یزید کی بیعت کر لو تو تمہیں اور تمہارے اہل بیت کو بخش دیا جائے گا۔"


امام حسینؑ نے نہایت عظمت اور وقار سے فرمایا: "یزید جیسے فاسق و فاجر کی بیعت کرنا میرے لیے ناممکن ہے۔ موت، یزید کی اطاعت سے بہتر ہے۔"


یہ جواب حق کی سربلندی اور ظلم کے خلاف اعلان تھا۔


وفاداری کی اعلیٰ مثال


9 محرم کی شام امام حسینؑ نے اپنے تمام ساتھیوں کو خیمے میں جمع کیا اور فرمایا: "دشمن صرف مجھے چاہتا ہے، تم میں سے جو جانا چاہے، چلا جائے۔ میں تمہیں اجازت دیتا ہوں۔"


امام کے جانثاروں نے کہا: "اے فرزندِ رسولﷺ! ہم آپ کو کسی صورت تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ ہم آپ کے ساتھ رہیں گے اور آپ کے قدموں پر اپنی جان قربان کریں گے۔"


حضرت مسلم بن عوسجہؓ نے کہا: "کیا ہم آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں اور قیامت کے دن آپ کو کیا منہ دکھائیں گے؟ ہرگز نہیں! ہم آپ کے ساتھ ہیں۔"


حضرت عباسؑ، حضرت علی اکبرؑ، حضرت قاسمؑ، حضرت زہیرؑ اور دیگر جانبازوں نے اپنی جان قربان کرنے کا عزم کیا۔


شبِ عاشور


9 محرم کی رات کو امام حسینؑ نے دشمن سے ایک رات کی مہلت مانگی تاکہ وہ اپنے رب کی عبادت میں مصروف ہو سکیں۔ امام حسینؑ نے پوری رات نماز، دعا، تلاوت قرآن اور مناجات میں گزاری۔ خیموں سے تلاوت قرآن اور ذکرِ الٰہی کی آوازیں آتی رہیں۔


امام حسینؑ نے اپنے اہل بیت اور اصحاب کو جنگ کی تیاری کا حکم دیا۔ حضرت زینبؑ اور دیگر خواتین دعا میں مصروف تھیں، بچوں کو گلے لگا کر آخری لمحات گزار رہی تھیں۔


حضرت عباسؑ کی بہادری


اسی رات حضرت عباسؑ نے امام حسینؑ سے پانی لانے کی اجازت مانگی تاکہ پیاسے بچوں کے لیے کچھ پانی حاصل کیا جا سکے۔ حضرت عباسؑ نے نہایت بہادری سے دشمن کے بیچ سے راستہ بناتے ہوئے نہر فرات تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن دشمن نے پانی تک پہنچنے سے روک دیا۔


حضرت عباسؑ کا یہ جذبہ وفا اور بہادری رہتی دنیا تک ایک مثال ہے۔


امام حسینؑ کا پیغام


امام حسینؑ نے اپنے آخری خطاب میں فرمایا: "اے لوگو! میں نے کبھی فساد نہیں چاہا، نہ کبھی ظلم کیا، میرا مقصد صرف امتِ محمدﷺ کی اصلاح ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم حق کو پہچانو اور باطل سے دور رہو۔"


یہ الفاظ آج بھی حق و باطل کے درمیان فرق واضح کرتے ہیں۔


9 محرم کا سبق


9 محرم کا دن صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک عظیم پیغام ہے:


حق کے لیے ڈٹ جانا


ظلم کے سامنے سر نہ جھکانا


دین کی خاطر جان قربان کرنا


صبر، وفا، اور ایثار کا مظاہرہ کرنا



یہ دن ہمیں بتاتا ہے کہ تعداد کی کمی سے فرق نہیں پڑتا، اگر نیت خالص ہو تو اللہ کی مدد ہمیشہ شامل حال ہوتی ہے۔


نتیجہ


9 محرم کی رات وہ رات تھی جب امام حسینؑ نے شہادت کا راستہ مکمل طور پر قبول کر لیا تھا۔ یہ رات صبر، عبادت، اور اللہ پر توکل کی رات تھی۔ اہل بیت کے بچے، خواتین، اور جوان سب نے اپنے امام کے ساتھ وفا کا عہد کیا۔ یزیدی لشکر کی تعداد ہزاروں میں تھی جبکہ امام حسینؑ کے ساتھی صرف بہتر تھے، مگر ان کی قوتِ ایمان بے مثال تھی۔


یہ واقعہ رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے۔ امام حسینؑ نے یزید جیسے فاسق و فاجر کو کبھی قبول نہیں کیا اور رہتی دنیا تک یہ پیغام دے دیا کہ "حسینؑ جھک سکتا ہے مگر باطل کے آگے نہیں۔"


Post a Comment

0 Comments